کسانوں کے روزمرہ مسائل اور عبقری کے آسان ٹوٹکے
چا چا لال خان گاڈی رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد کا قصہ سناتے تھے میرا والد ہاتھو خان گاڈی رحمۃ اللہ علیہ بڑا زمین دار تھا بیل سے ہل چلاتا تھا میری والدہ گھر کے کام کاج سے فارغ ہو کر والد صاحب کی مدد کیا کرتی تھیں ۔ میں مکتب سے پڑھ کر اپنے کھیتوں میں کام کیا کرتا تھا ہمارا 4 کنال زمین میں آموں کا باغ تھا ۔ ایک سال آموں پر (پھل لگنے سے پہلے) بے حد بور ہوا ہر کسی نے کہا اس مرتبہ آم زیادہ لگیں گے خدا کا کرنا ایسا ہوا آموں کے درختوں کو بیماری لگ گئی ۔ سارا بور 10 دن کے اندر گر گیا اور اکثر آم کے درخت نیچے سے سوکھنے لگ گئے ‘ہمارے تجربات کے مطابق اگر زمین سیم کر جائے ‘ یا درخت نہایت بوڑھا ہو جائے ‘ درخت کو سردی لگ جائے ‘ زیر زمین پانی کا مسئلہ تھا بس اچانک آموں کے درختوں کو بیماری لگ گئی ۔ کسی نے کہا باغ کو شدید نظر بد لگ گئی ہے ۔ کسی نے کہا آپ کے حاسدین نے تعویذ کروائے ہوں گے‘ گائوں کے ہر بندے نے اپنی اپنی سوچ کے مطابق مختلف توجیہات بیان کیں ۔ہمارے والد صاحب نے باغ میں جا کر درختوں کو بغور نزدیک جا کر دیکھا تو معلوم ہوا ایک خاص سبز قسم کا کیڑا تھا جو تعداد میں لاکھوں تھے اور نہایت باریک تھے پورے باغ پر حملہ آور تھے ۔ ان کیڑوں نے آم کے ہر درخت کےنیچے چھوٹے چھوٹے سوراخ بنائے ہوئے تھے ۔ دن کو اپنے بلوں ‘ سوراخوں سے نکل کر آم کے درختوں پر لگا بور اور پتے کھاتے شام سے پہلے اپنے سوراخوں میں چلے جاتے ۔اگلے صبح دن والد صاحب نے اپنے گھوڑے کو تیار کیا بغیر بتائے ‘ بغیر ناشتہ کئے اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے ۔ٹھیک عشا ء کے وقت والد صاحب کے ساتھ گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھے ایک پرانے مالی با با جی ہمارے گھر تشریف لائے ‘رات کو والد صاحب نے مالی با با جی کی خوب خدمت کی حقہ تیار کر کے با با جی کو پیش کیا ‘ کھانا کھلایا بابا جی نے کھانا کھانے کے بعد عشا ء کی نماز پڑھی ‘ چائے پی اور کچھ دیر ادھر اُدھر کی باتیں ہوئیں‘ گپ شپ کے بعد با با جی سونے کے لئے بستر پر دراز ہو گئے ۔ با با جی تہجد کے وقت اٹھے نماز تہجد ادا کی ‘ والد صاحب کو آواز دی‘ والد صاحب نے اٹھ کر مجھے جگایا ‘ با با جی کے حکم کے مطابق چونے کی ڈلیاں ہم نے تازہ پانی میں بھگو دیں ٹھیک 2 گھنٹہ بعد ہر درخت کو جڑ سے لے کر اوپر 5 فٹ تک اچھی طرح تیار شدہ سفید چونا لگایا۔ پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت 5 عدد مزدوروں نے آم کے ہر درخت کے نیچے گولائی میں چاروں طرف سے 4 فٹ‘ چوڑائی میں بھی 4 فٹ جبکہ گہرائی میں ڈیڑھ فٹ گڑھا کھودا ۔ جیسے جیسے باغ میں کھدائی ہوتی گئی ویسے ویسے سبز رنگ کے کیڑے اپنے اپنے بلوں ‘ سوراخوں سے نکلتے گئے کچھ ادھر اُدھر بھاگ گئے اور کچھ آموں کے درختوں پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگے جو کیڑے آموں کے درختوں پر چڑھنے کی کوشش کرتے درختوں پر لگے ہوئے تازہ چونے کی بدبو سے دھڑام سے نیچے گرتے طے شدہ پروگرام کے تحت مزید دو مزدوروں کو کیڑے مار نے پر لگا دیا ۔
مزدوروں کے ہاتھ میں ایک عدد لمبی (ڈانگ) لمبا سوٹا تھا اور سوٹے کے سرے پر پرانے کپڑوں کو لپیٹ کر مٹی کے تیل سے تر کر کے آگ لگائی گئی اس آگ سے تمام کیڑوں کو جلا دیا گیا بعد میں ہر درخت کے نیچے کھودی ہوئی جگہ کو جانوروں کے خشک گوبر ‘ تازہ ’’جسے سرائیکی زبان میں ’’اھل ‘‘ کہتے ہیں چکنی مٹی ‘ اور خشک چونا ملا کر بھر دیا گیا ٹھیک تین دن بعد با با جی کے حکم سے باغ کو پانی پلایا گیا ۔ ہم پھر ہر ہفتہ باغ کو پانی پلاتے رہے آہستہ آہستہ چند دنوں بعد سوکھنے والے درختوں پر سر سبز پتے آنے لگے گئے ‘ جو لڑیاں اوپر سے سوکھ گئیں تھیں ہم نے ان کو اتار لیا ۔ گویا تمام مریض درختوں کا دیسی طریقہ
سے آپریشن کیا گیا ۔ اگلے سال ہمارے باغ میں بہت زیادہ پھل لگا الحمد اللہ پچھلے تین سال کا خسارہ مکمل ہو گیا ۔ محترم قارئین اگر آپ میں سے کسی صاحب کا کوئی پھل دار درخت پھل نہ دے یا کسی بھی وجہ گرمی ‘ سردی ‘ سیم یا کسی بھی بیماری کی وجہ سے سوکھنے لگے جائے پھلوں میں کمی آئے تو ہر درخت کی نوعیت ‘ لمبائی ‘ چوڑائی ‘ طاقت ‘ حیثیت دیکھتے ہوئے موقع مناسبت کے لحاظ سے مذکورہ طریقہ کے مطابق کھدائی کریں کھدائی کے سائز میں پھل دار درخت کو مد نظر رکھ کر کمی بیشی کر لیں انشا ء اللہ آپ کا سوکھنے والا پھل دار درخت نو جوان ہو جائے گا اور خوب پھل دے گا ان شا ء اللہ ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں